Tuesday, April 16, 2024

ٹھرکی

تحریر: محمد شکیل ملک
ٹھرکی کون ہوتا ہے؟ یہ سوال ایک شاگرد نے ارسطو سے کیا تو ارسطو ناراض ہوکر کلاس چھوڑ گیا اور چار ماہ کے بعد آیا جب اسے یقین دلایا گیا کہ اب کلاس میں نہ کوئی صنف نازک ہے اور نہ ہی سوال کنندہ شاگرد۔
دورِ جدید کو دورِ ٹھرک الوجودیت قرار دیا جائے تو چنداں غلط نہیں ہوگا۔ نظریہ ٹھرک الوجودیت مردوں میں شوگر کی مانند سرائت کر چکا ہے۔ ہر وہ محفل جہاں مردوزن موجود ہوں ٹھرک کی بھینی بھینی اگربتی جیسی خوشبو سے معطر رہتی ہے۔ جن لوگوں کو اگربتی سے الرجی ہو وہ اپنی ذیلی محفل الگ کر لیتے ہیں۔
بظاہر تو ٹھرک کا وجود صرف اس محفل میں نہیں ہونا چاہئے جس میں صرف مرد حضرات بیٹھے ہوں لیکن مکمل مردانہ محفلوں میں لازمی سمجھا جاتا ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں ٹھرک بالغیب ادا کیا جائے ورنہ محفل رائیگاں جائے گی۔ زنانہ محافل بھی اب ٹھرک سے محفوظ نہیں رہیں۔ یہ ٹھرک الزن کے جراثیم یورپ سے کرونا کی طرح وطنِ عزیز میں وارد ہوئے ہیں اور ہنوز نظریاتی ٹھرک کی شکل میں ہیں۔ ایسی محافل میں ٹھرک دیکھنے کی حد تک ہی منعقد ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں ہر قسم کے ٹھرک الوجودی حضرات پائے جاتے ہیں۔ ٹھرک کی کئ اقسام ہیں۔ تمام اقسام کا احاطہ ایک مضمون میں ممکن نہیں کیونکہ یہ اب پی ایچ ڈی کے لئے ریسرچ ٹاپک بننا چاہئے۔ تاہم ہم یہاں چند اہم اقسام کا تذکرہ ضرور کریں گے۔
پہلی قسم ٹھرک بالجہر ہے۔ جب کسی مردانہ محفل میں کوئی ایک خوبصورت صنف نازک آجائے تو یکدم ایک رونق کا احساس ہونے لگتا ہے۔ مرد حضرات سمجھتے ہیں کہ قبل ازیں وہ چالیس وولٹ کی ٹیوب لائٹ میں بیٹھے تھے اور اس کے آنے سے دو ہزار وولٹ کے بلب روشن ہوگئے ہیں۔ انہیں فرش پہ رینگتی چیونٹی بھی دکھائ دینے لگتی ہے۔ اس روشنی میں سارے نوارد کے چہرے کا تل بھی دیکھ لیتے ہیں۔ پھر ہر ایک کی جستجو ہوتی ہے کہ بالواسطہ یا براہ راست کوئی ایسی حرکت کرے جس سے وہ صنف متوجہ ہو جائے۔ ایسے میں کچھ حضرات اظہارِ ٹھرک بالجہر کرتے ہیں اور فوراً اپنا وزیٹنگ کارڈ پیش کرتے ہیں یا اپنا سیل نمبر دیتے ہیں۔ تعارف کے بعد اس کے فون نمبر لینے کی درخواست بھی پیش کردیتے ہیں۔ ایسے حضرات اپنا عہدہ اور مقام بیان کرتے ہوئے خادم الخواتین ہونے کا عندیہ بھی دے دیتے ہیں۔ کچھ لوگ پسند کے گانے، فلمیں اور رنگ پوچھ کر فوراً ان کے حامی ہوجاتے ہیں۔ ان میں کوئی ایسے حضرت بھی بیٹھے ہوتے ہیں جو اس صنف نازک کو مرعوب کرنے کی خاطر تمام حاضرین کو کھانے کی دعوت دے ڈالتے ہیں۔

دوسری قسم ٹھرک بالقلب کی ہے جو اپنے دل میں تصورِ ٹھرک فرماتے ہیں۔ ایسے حضرات نہائت لطیف انداز میں اظہارِ ٹھرک بذریعہ شعر وشاعری شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے اشعار سناتے ہیں جن میں اس کے حسن کی تعریف بالواسطہ اس تک پہنچ جائے۔ اگر وہ شرماتی مسکراہٹ دے تو انہیں جتنے اشعار یاد ہوں اب سنا ڈالتے ہیں۔ اس دوران وہ اگر محسوس کریں کہ خاتون کی دلچسپی نہیں تو شاعری روک کر مزاحیہ گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ اپنے بارے میں پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں۔ لطیف اظہار کے دوران وہ خاتون کی طرف مسلسل نہیں دیکھتے کہ مبادا وہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ سب کچھ اس کے لئے کیا جارہا ہے۔ لیکن ہلکا سا کبھی کبھی کن اکھیوں سے اس پہ بھی نگاہ ڈال دیتے ہیں۔ جب وہ دیکھ لیں ہیں کہ ان کے برجستہ جملوں پہ خاتون کے چہرے پہ مسکراہٹ آرہی ہے تو ان کی برجستگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کلاؤنز کو ہمیشہ پسند کرتی ہیں۔ یہ ذہین ٹھرکی ہوتے ہیں۔

تیسری قسم اظہارِ ٹھرکِ جہرِ خفی کی ہے۔ ایسی محفل میں کوئی نہ کوئی ٹھرکی القلب ایسا بھی ہوتا ہے جو بالکل خاموش بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے چہرے پہ ایک ہلکی سی شرارتی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ وہ خاتون کی طرف بالکل نہیں دیکھتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کی مردوں کی نظر اور ذہنی کیفیت بھانپنے کی صلاحیت مردوں کی ایسی صلاحیت سے تین گنا ذیادہ ہوتی ہے۔ یہ سب سے کامیاب اور عیار ٹھرکی ہوتا ہے کیونکہ اس کی خاتون سے ملاقات اگلی محفل میں ہونی ہوتی ہے جس میں وہ یہ سننا چاہ رہا ہوتا ہے کہ آپ سب سے مختلف تھے باقی تو سارے ٹھرکی تھے۔
چوتھی قسم ٹھرکِ سرّی ہے۔ کچھ ٹھرکی القلب ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ وہ خواتین سے بہت دور بھاگتے ہیں۔ ایسے لوگ مردانہ محفل میں دوسروں کی وساطت سے ذکر زنانہ جاری کرتے ہیں ۔ ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کسی ساتھی کا تذکرہ شروع کرتے ہیں کہ وہ کس قدر ٹھرکی ہیں۔ پھر بہت مزے سے ان کے قصے بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ بظاہر تو وہ اپنے ساتھی کے واقعات بیان کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے چہرے پہ آنے والی مسرت اور چمک سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دوست کے حوالے سے ان تمام خواتین کا تذکرہ مقصود تھا جنہیں وہ دیکھ کر تصوراتی ٹھرک ادا کر چکے تھے۔ یہ وہ ٹھرکی حضرات ہوتے ہیں جو کسی خاتون کی محفل میں موجودگی کو بظاہر ناپسندیدگی سے دیکھتے ہیں لیکن بعد میں اس کا غائبانہ تذکرہ اپنے ویلین کا نام لیکر کرتے ہیں۔ ایسے ٹھرکی مردوں کی قسم ہمارے ہاں اکثریت میں پائی جاتے ہیں۔

سائبر ٹھرک معروف قسم بن چکی ہے جس میں مردوں کی اکثریت مبتلا ہے۔ اگر آپ فیس بکی ٹھرک کا جائزہ لیں تو یہ نہائت دلچسپ ریسرچ پائیں گے۔ فیس بک پہ عموماً بالخصوص وطنِ عزیز میں بنے زنانہ پروفائلز جن میں تصویر میں حسین خواتین نظر آتی ہیں دراصل مردانہ پروفائلز ہیں۔ تاہم ان پہ ہزاروں مردانِ حر نے نگاہِ ٹھرک میں فرینڈشپ کی کنڈیاں ڈال رکھی ہوتی ہیں۔ ایسے پروفائلز کی ہر پوسٹ تصویری ہو یا تحریری پہ لائکس سینکڑوں سے ہزاروں میں ہوتی ہیں۔ مردانہ کمنٹس ایسے ہوتے ہیں کہ جیسے دنیا کی حسین ترین اور ذہین ترین خاتون وہی ہے جسکی پروفائلِ ھذا میں تصویر لگی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ انہیں موتی لگتا ہے اور ہر تصویر قلوپطرہ سے ذیادہ حسین۔ نہ جانے ایسے پروفائلز بنانے والے اتنی حسین تصویریں کہاں سے لیتے ہیں۔ حقیقی دنیا میں تو ایسے نہیں ہے۔
فیس بکی ٹھرکیوں کے لئے بہترین موقع وہ ہوتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ کسی حسینہ نے کسی مرد کی پوسٹ پہ کمنٹ کیا ہے۔ اس سے انکے دماغ کو پیغام جاتا ہے کہ یہ حقیقی حسینہ ہے لہذا اسے درجنوں کے حساب سے فرینڈز ریکویسٹ کی کنڈیاں
پھینکتے ہیں۔ اس کے کمنٹس کے نیچے اپنے کمنٹس لکھنا باعثِ صد افتخار جانتے ہیں۔ ریکویسٹ پہ اگر وہ پوچھ لے، “ آپ کون ہیں؟” تو جواب دیتے ہیں، “ میں وہی ہوں جس نے ابھی آپ کے کمنٹس کی تائید کی ہے۔ اتنے برجستہ اور ذہانت سے بھرپور کمنٹس کیسے کر لیتی ہیں؟ میں آپ سے سیکھنا چاہتا ہوں “
ٹھرکی رنگ و نسل، ذات پات، کلاس اور ملک و قوم کی تفریق سے بالا تر ہوتے ہیں۔ اگر تمام مرد ٹھرکی ہو جائیں تو ایسی تمام تفریقیں مٹ جائیں گی۔